مہاراشی والمکی نے رامائن لکھا۔ علم حاصل کرنے سے پہلے وہ ایک ڈاکو تھا۔ وہ والیا بھیل کے نام سے مشہور تھا۔ وہ ڈاکو تھا، لوگوں کو افسوس کے بغیر قتل کرتا، دوسروں کو قتل کرکے اور پیسہ کما کر اپنی پوری زندگی برباد کرتا تھا۔ ایک بار جب نارادجی اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ "دوست، تم روزانہ اس طرح کے گھنائونے جرائم، گناہ، معصوم جانوں کا قتل عام کر رہے ہو اور جس کے لئے تم یہ کام کر رہے ہو، کیا وہ تمہارے گناہوں میں شریک ہوں گے، کیا وہ تمہارے جرائم کا حصہ ہوں گے"۔ اس نے جواب دیا "ہاں میرے گھر والے میرے گناہ بانٹیں گے"۔ نردجی نے کہا "ہاں نہ کہو، جا کر ان سے پوچھو"۔ جب وہ گھر گیا اور اپنے والدین سے پوچھا کہ "کیا تم میرے شراکت دار ہو اور میرے جرائم کے نتائج کا اشتراک کرو گے"۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے بیٹے ہیں، آپ کو ہمارا خیال رکھنا ہوگا، آپ کے گناہوں میں شریک (بھاجیدار) کیوں ہونا چاہئے۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے یہی سوال کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آپ نے مجھ سے شادی کی ہے، اس لئے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ میری دیکھ بھال کریں، آپ کے گناہوں میں بھگیدر کیسے ہوسکتا ہے۔ بچوں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ ان میں سے کوئی بھی اس کے جرائم کے زہریلے نتائج برداشت نہیں کرنا چاہتا تھا پھر نارادجی نے اسے بتایا کہ چونکہ آپ کے خاندان کے کسی فرد کو آپ کے جرائم کے نتائج (بھاگیدر) بانٹنا نہیں چاہتے ہیں، اس لئے آپ فیصلہ کریں، آپ کو اپنے بیمار اعمال کا پھل برداشت کرنا ہوگا۔ فوراً اس نے اس کے ہاتھ سے اسلحہ گرا دیا اور اس ایک واقعہ نے اسے والیہ بھیل سے لے کر مہاراشی والمکی تک جو رامائن لکھا تھا۔ انہوں نے گوتم بودھا کے زمانے میں پیش آنے والے ایک اور واقعات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔
انگولیمل ایک مشہور ڈاکو اور بے رحمی کلو تھا۔
پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے- ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی- عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا- عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا – جب کہ مانی فن سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے-
یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کے ساتھ سفر پر روانہ ہونے والا تھا تو اس کا باپ بیمار پڑ گیا- بیماری کی وجہ سے وہ کافی کمزور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی- عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے-
اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا- ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی- وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کردیتے تھے- دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے-
سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا- چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا- اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا- وہ دونوں چونکہ جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کردی- انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے-
سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے- عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوۓ تھے جو سونے کی اشرفیوں سے لبا لب بھرے ہوۓ تھے- یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں- مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں- اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے اس کے گھوڑے پر لدے ہوۓ تھے-
دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے – اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے- اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی- ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں- اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا- وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے- ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تیز تلواریں تھیں-
سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا- وہ ان کا سردار معلوم دیتا تھا- اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا - "شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں- سارا مال ان سے چھین لو- مزاحمت کریں تو قتل کردو"-
عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے- لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے- عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا- "ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے- عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں- تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو"-
ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا – پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں-
مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی- عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی- ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی- جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا- عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی-
دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی- وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا- اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی- پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا- "بے ایمان لڑکو- یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟"-
مانی نے گڑ گڑا کر کہا "اے ڈاکوؤں کے سردار- ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو"-
ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا "نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوۓ ہیں- پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟"-
مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا "انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے- ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے- اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے- اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا"-
مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں- اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں- مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں- اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے-
دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے- سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا – انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوۓ نظروں سے اوجھل ہوگئے- شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا-
ڈاکوں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا- "خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوۓ مجھے اچھا نہیں لگ رہا"-
"فکر کیوں کرتے ہو- الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا"- مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوۓ اسے تسلی دی- پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے-
دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی- ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوۓ اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا-
یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے- ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا- وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے- ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا- اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا-
بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوۓ پرندے شور مچاتے ہوۓ اڑ گئے- ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا- اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے-
اچانک قریبی درختوں پر سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے- بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوۓ تھے- وہ بھی باہر آگئے- ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا-سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں- انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا- ایک تو ڈاکو بے خبر تھے- دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے- سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا-
اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے- انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے- یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں-
مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا- "میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا- اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟ "
اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا- مانی نے پھر کہا- "ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو- میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں"-
عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا- "جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوۓ تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں- تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا- اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی- اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا"-
ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا- اس نے اپنا سر جھکا لیا-
مانی کے باپ کوتوال نے عدنان اور مانی سے کہا- "اگر ہم ان خطرناک ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوۓ ہیں تو یہ تم دونوں کی عقل مندی کی وجہ سے ہوا ہے- یہ تو کسی طرح ہاتھ ہی نہیں آتے تھے- انہوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی تھیں- برے کام کا برا انجام ہوتا ہے- اب یہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے"-
بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں لمبی لمبی سزائیں ہو گئیں- عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا- یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا-
Motivational Quotations about Success in Urdu Hindi
Motivational Quotations about Success in Urdu Hindi ہر وہ کامیابی بیکار ہے جس سے کامیابی حاصل کرنے والے کو روحانی خوشی محسوس نہ ہو ۔آپ کی کامیابیوں کا آپ کی زندگی کیلئے روحانی سکون کا باعث ہونا ضروری ہے ۔آپ کو کامیابی ہمیشہ روحانی خوشی اور ذاتی مسرت کیلئے حاصل کرنی چاہیے ۔اگر آپ بنیادی طور پر اپنے مقاصد کو تحریر کر لیں گے اور پھر اُسے اپنی زندگی میں اپنا لیں گے۔ تو آپ کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا
Motivational Quotations about Success in Urdu Hindi हर वह कामयाबी बेकार है जिस से कामयाबी हासिल करने वाले को रोहानी खुशी महसूस ना हो.आप की कामयाबिओं का आप की ज़िन्दगी के लिए रूहानी सुकून का बायस होना ज़ुरूरी है. आप को कामयाबी हमेशा रोहाणी खुशी और ज़ाती मुसर्रत के लिए हासिल करनी चाहिए. अगर आप बुनयादी तोर पर –अपने मक़ासिद को तेहरीर कर ले गए और फिर उसे अपनी ज़िन्दगी में अपना लें गे. तो आप को कामयाब होने से कोई नहीं रोक सकता .
اپنے مقصد کو پانے کیلئے اس حد تک محنت کرو کہ قسمت بھی کہے لے لو بیٹا اس پر تمہارا ہی حق ہے apne maqsad ko panay ke liye is had tak mehnet karo ke qismat bhi kahe le lo beta is par tumhara hi haq hai अपने मक़सद को पाने के लिए इस हद तक मेहनत करो के किस्मत भी कहे ले लो बेटा इस पर तुम्हारा ही हक़ है
قسمت سے لڑنے میں مزہ آ رہا ہے دوستو یہ مجھے جیتنے نہیں دے رہی اور میں ہار نہیں مان رہا qismat se larnay mein maza aa raha hai doston yeh mujhe jeetnay nahi day rahi aur mein haar nahi maan raha किस्मत से लड़ने में मज़ा आ रहा है दोस्तों यह मुझे जीतने नहीं दे रही और में हार नहीं मान रहा
یہ سچ ہے کہ وقت بدلتا ہے مگر محنت کر کے بدلنا پڑتا ہے یہ خود نہیں بدلتا ہے yeh sach hai ke waqt badalta hai magar mehnet kar ke badalna parta hai yeh khud nahi badalta hai यह सच है के वक़्त बदलता है मगर मेहनत कर के बदलना पड़ता है यह खुद नहीं बदलता है
اگر کسی چیز کو دل سے چاہتے ہو تو اُس وقت تک کڑی محنت کرو جب تک اُسے حاصل نہیں کر لیتے agar kisi cheez ko dil se chahtay ho touss waqt tak kari mehnat karo jab tak ussay haasil nahi kar letay अगर किसी चीज़ को दिल से चाहते हो तो उस वक़्त तक कड़ी मेहनत करो जब तक उसे हासिल नहीं कर लेते
اپنی ضد کو بڑا کیجئے کامیابی کیلئے نئے راستے مل جائیں گے اگر راستے نہ بھی ملیں تو آپ خود بنا لو apni zid ko bara kijiyej kamyabi ke liye nayey rastay mil jayen gay agar rastay nahi bhi milein to aap khud bana lo gay अपनी ज़िद को बड़ा कीजियेज कामयाबी के लिए नये रास्ते मिल जाएँ गे अगर रास्ते नहीं भी मिलें तो आप खुद बना लो गे
تمہاری زندگی میں ہونے والی ہر چیز کے ذمہ دار تم ہو اس بات کو جتنی جلدی مان لو گے زندگی اُتنی ہی بہتر ہو جائے گی
tumhari zindagi mein honay wali har cheez ke zimma daar tum ho is baat ko jitni jaldi maan lo gay zindagi utni hi behtar ho jaye gi तुम्हारी ज़िन्दगी में होने वाली हर चीज़ के जिम्मे दार तुम हो इस बात को जितनी जल्दी मान लो गे ज़िन्दगी उतनी ही बेहतर हो जाये गई
اچھی کتاب اور اچھے لوگ فوراً سمجھ میں نہیں آتے انہیں پڑھنا پڑتا ہے
achi kitaab aur achay log foran samajh mein nahi atay inhen parhna parta hai अछि किताब और अच्छे लोग फ़ौरन समझ में नहीं आते इन्हें पढ़ना पड़ता है
محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ کامیابی شور مچا دے mehnat itni khamoshi se karo ke kamyabi shore macha day मेहनत इतनी खामोशी से करो के कामयाबी शोर मचा दे
اگر آپ کچھ سوچ سکتے ہیں تو یقین جانئیے آپ اُسے کر بھی سکتے ہیں agar aap kuch soch satke hain to yaqeen janiye aap ussay kar bhi sakte hain अगर आप कुछ सोच सत्के हैं तो यकीन जानिये आप उससे कर भी सकते हैं
جتنا بڑا سپنا ہو گا اتنی بڑی تکلیفیں ہوں گی اور جتنی بڑی تکلیفیں ہو ں گی اتنی بڑی کامیابی ہو گی jitna bara sapna ho gaa itni badi takleifein hon gi aur jitni badi takleifein hon gi itni badi kamyabi ho gi जितना बड़ा सपना हो गए इतनी बड़ी तकलीफें हो गई और जितनी बड़ी तकलीफें हो गई इतनी बड़ी कामयाबी हो गई
. . . . .براوقت میں ہی انسان کو پتا چلتا ہے . . . .
Insaan apna bura waqat tu bhol jata hai,laikn bury waqat mein logun ka bura rawaya kabhi nahi bholta…
Kabhi kabhi bura waqat aap ko kuch…Achy logun sey milwany k leye bhi aata hai,,,
Waqat acha hu ya bura badalta zaroor hai,ic leye achy waqat mein kuch aesa bura mat karo ,,keh bury waqat mein achy log aap ka sath chor jayen,,,
Log kahty hain pesa jama ker k rakho…bury waqat mein kaam ayen gay,,,mein kahta hun khuda per bharosa rakhu,,bura waqat aye ga hi nahi,,
Be shaq bura waqat bata ker nahi aata ,magar sekha ker buhat kuch jata hai…
Jis ney bura waqat dekha hu,,,wo kesi k sath bura nahi kerta,,,
Ju shakhas mery bury waqat mein mery sath hai,,in k leye mery paas aik hi jumla hia…mera acha waqat siraf tumhary leye hu ga….
Mery achy waqat ney dunya ko bataya k mein kia hun..laikn mery bury waqat ney mujhy ye bataya ke…dunya kia hai.,
Kahty hain bura waqat sab per aata hai,,koi bikhar jata hai ..aur koi nikhar jata hia..
zindagi mein agar insaan per bura waqat na aata tu..apno mein chupy ghair,,aur gherun mein chupy apny kabhi zahir na ho paaty,,,
Bura waqat sab per aata hai,laikn kuch log bury waqat ka bahaduri sey muqabala kerty hai ,aur nikhar ker samny aaty hain..however kuch log bury waqat mein himat haar jaty hai..aur apna sath aap hi chor dety hain,,keyon k dunya waly tu bury waqat mein sath chorty hi hai,,in other words agar hum bhi mushqil waqat mein apna sath chor dain gay ,himat nahi karain gay tu koi bhi hamara sath nahi day ga..